کورونا وائرس کے بارے میں اہم معلومات

کوووڈ نائنٹین کا ٹیسٹ

Web Desk |

کوووڈ نائنٹین کا ٹیسٹ

دنیا کے تقریباً ہر ملک میں قرنطینہ یا لاک ڈاون جاری ہے جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی، سماجی فاصلہ بھی قائم رکھا جا رہا ہے، لیکن یہ ابھی تک اتنا زیادہ کامیاب نہیں ہوا جتنا کہ اسے ہونا چاہیے، اگر یہ کہا جائے کہ ہمیں عجیب و غریب اور پراسرار حالات کا سامنا ہے تو یہ بات کسی طور بے جا نہ ہوگی اور دنیا کے ہر ملک کی طرح پاکستان بھی کورونا وائرس سے نمٹنے میں مشکلات کا شکار ہے،
وائرس نے جہاں سب کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے وہیں صحت عامہ کی سہولتوں میں موجود خامیاں بھی سامنے آئی ہیں، پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک کی بات تو چھوڑیئے، کورونا نے ترقی یافتہ ملکوں اور بہترین طبی سہولیات رکھنے والے ملکوں کی ناک میں بھی دم کردیا ہے، یورپ اور امریکا کے ہیلتھ کیئر کی ہی مثال لے لیں جس نے کورونا کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں، ہمیں اس بات کا اندازہ ہوجانا چاہیے کہ صورتحال بہت خطرناک ہے۔
کورونا وائرس سب سے پہلے چین کے شہر ووہان میں نمودار ہوا اور عالمی ادارہ صحت کے پاس اکتیس دسمبر دو ہزار انیس کو پہلا کیس درج ہوا، اس کے بعد ایران اور اٹلی سمیت دنیا کے بڑے ملکوں میں کورونا پھیلتا چلا گیا اور چند ہی مہینوں میں اس نے ایک وبا کی صورت اختیار کرلی۔ پاکستان کے دو پڑوسی ملک بھی وائرس سے متاثر ہوگئے تو پاکستان کا بچ رہنا کیسے ممکن تھا اور بالٓاخر وائرس یہاں بھی اپنے پنجے گاڑھنے میں کامیاب رہا۔
پاکستان میں پہلا کیس چھبیس فروری کو سامنے آیا، جیسے جیسے مشتبہ افراد کے ٹیسٹ بڑھائے گئے ویسے ویسے مریضوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا، گیارہ اپریل کو وائرس کا شکار افراد کی تعداد پانچ ہزار تک پہنچ گئی، مرنے والوں کی تعداد بھی اکھہتر ہوچکی ہے، دوسرے ملکوں کی طرح ابتدا میں حکومت پاکستان بھی وائرس سے نمٹنے کیلیے مکمل طور پر تیار نہیں تھی، تاہم اب ایسا نہیں ہے اور حکومت انتہائی سنجیدہ اور جنگی بنیاد پر تیار ہوچکی ہے۔
پاکستان نے وائرس سے نمٹنے کیلیے مرحلہ وار اقدامات شروع کردیئے، سب سے پہلے ماہ جنوری کے وسط میں ہوائی اڈوں پر کورونا کی شناخت کیلیے کاونٹر قائم کیے گئے، اورپھر مارچ کے دوسرے ہفتے میں یکے بعد دیگرے صوبوں میں لاک ڈاون کا نفاذ ہوگیا، جو ابھی تک جاری ہے اور شاید اسی ردعمل کا نتیجہ ہے کہ فی الوقت ہم ملک میں وائرس کے مریضوں کی تعداد کم سے کم رکھنے میں کامیاب ہو پائے۔
دوسرے ملکوں کے مقابلے میں متاثرین کی کم تعداد کی ایک اور بڑی وجہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں ٹیسٹ کی سہولت ابھی تک بہت کم ہے۔ اگر اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں اب تک صرف تینتالیس ہزار افراد کے ٹیسٹ ہو پائے ہیں، اس لحاظ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ دوسرے ملکوں میں ٹیسٹ زیادہ ہورہے ہیں اسی لیے مریض بھی زیادہ سامنے آئے۔ آیئے کچھ اعداد و شمار پر نظر ڈالتے ہیں کہ ہر دس لاکھ میں کتنے افراد کا ٹیسٹ ہوا:
۔۔ پاکستان، ایک سو اکیانوے ٹیسٹ۔
۔۔ ملائیشیا، ایک ہزار سات سو ننانوے ٹیسٹ
۔۔ برطانیہ، چار ہزار ایک سو پچپن ٹیسٹ۔
۔۔ ایران، دو ہزار پانچ سو چودہ ٹیسٹ۔
۔۔ امریکا، چھہ ہزار چار سو تیئیس ٹیسٹ۔
۔۔ اٹلی، تیرہ ہزار تین سو انچاس ٹیسٹ۔
معاون خصوصی صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کے مطابق ملک بھر میں عوام کیلیے چودہ لیبارٹریز میں کورونا ٹیسٹ کی سہولت دستیاب ہے۔ جن کی فہرست کچھ یوں ہے:
۔۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ)، اسلام آباد
۔۔ آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف پیتھالوجی (اے ایف آئی پی)
۔۔ پنجاب ایڈز لیب، لاہور
۔۔ نشتر اسپتال، ملتان
۔۔ شوکت خانم میموریل اسپتال، لاہور
۔۔ آغا خان یونیورسٹی اسپتال، کراچی
۔۔ سول اسپتال، کراچی
۔۔ اوجھا انسٹی ٹیوٹ، کراچی
۔۔ انڈس اسپتال، کراچی
۔۔ پنجاب ہیلتھ لیبارٹری، پشاور
۔۔ فاطمہ جناح اسپتال، کوئٹہ
۔۔ موبائل ڈائیگناسٹک یونٹ، تفتان
۔۔ ڈی ایچ کیو اسپتال، گلگت
۔۔ مظفرآباد میڈیکل سائنس انسٹی ٹیوٹ
یہ وہ سینٹرز ہیں جہاں مشتبہ افراد کو ٹیسٹ کی مفت سہولت فراہم کی جارہی ہے، یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ حکومت تو سہولت فراہم کر رہی ہے، نجی سیکٹر میں بھی ایسی لیبارٹریز موجود ہیں جہاں ٹیسٹ کی سہولت دستیاب ہے تاہم وہاں ٹیسٹ کی فیس ادا کرنا ہوگی، اس میں چغتائی لیبارٹریز سرفہرست ہے جو ایک ٹیسٹ کے سات ہزار نو سو روپے لے رہے ہیں۔
دنیا میں وائرس کی وجہ سے پیدا صورتحال کے باعث ٹیسٹنگ کٹس کی قلت پیدا ہوگئی ہے، ہر ملک کی یہ کوشش ہے کہ جتنی زیادہ تعداد میں ممکن ہوسکے مارکیٹ سے ٹیسٹنگ کٹس حاصل کرلے۔ درحقیقت پاکستان کو بھی کٹس کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے،لیکن بھلا ہو برادر ملک چین کا جس نے ایک بار پھر آگے بڑھ کر پاکستان کی مدد کی اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں ٹیسٹنگ کٹس مل رہی ہیں، ابھی چند ہی روز قبل علی بابا گروپ کے جیک ما نے بھی پاکستان کو بنیادی چیزیں فراہم کی ہیں جن میں وینٹی لیٹرز، ماسکس اور حفاظتی آلات شامل ہیں۔
اس وقت پاکستان روزانہ کی بنیاد پر تین ہزار کے قریب ٹیسٹ کر رہا ہے، پنجاب اس میں سر فہرست ہے جہاں ایک دن میں تقریباً دو ہزار مشتبہ افراد کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ حکومت اگلے چند ہفتوں میں اپنا ہدف بڑھا کر چھہ ہزار ٹیسٹ روزانہ تک لے جانا چاہتی ہے، ٹیسٹ کی صلاحیت میں اضافہ بہت ضروری ہے، اسی سے ہمیں یہ اندازہ ہوپائے گا کہ وائرس سے پیدا ہونے والی بدترین صورتحال میں دراصل ہم کہاں کھڑے ہیں۔
یہاں کراچی کے انڈس اسپتال کے قابل تعریف اقدام کا ذکر بے جا نہ ہوگا جس نے حال ہی میں عوام کو ٹیسٹ کی مفت سہولت مہیا کردی، آپ کو صرف اتنا کرنا ہے کہ ٹیلی فون اٹھائیں اور زیرو ٹو ون، نائن نائن ٹو زیرو تھری زیرو ون ٹو پر رابطہ کریں اور اسکریننگ اور ٹیسٹ کیلیے وقت طے کرلیں، اسپتال کی طرف سے یہ سہولت کراچی کے شہریوں کو دستیاب ہے۔


ایک اہم مسئلہ ٹیسٹ کا ہے کیونکہ لوگ اس بات سے بھی پریشان ہیں کہ اگر وہ ٹیسٹ کیلیے جاتے ہیں تو پھر کیا ہوگا؟
اول تو یہ کہ اگر آپ میں مرض کی علامات نہیں ہیں تو ٹیسٹ کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ آپ کو صرف اتنا کرنا ہے کہ گھر میں رہیں، غیر ضروری رابطے سے بچیں اور سماجی فاصلے کی ہدایات پر عمل پیرا رہیں، لیکن خدانخواستہ مرض کی علامات ظاہر ہوجائیں یا پھر آپ حال ہی میں سفر کر چکے ہیں تو پھر آپ کو ٹیسٹ کرانے کی ضرورت ہے۔ تاہم اس صورت میں بھی ڈاکٹر آپ کی علامات کی جانچ کرے گا کہ ظاہر ہونے والی علامات کا کورونا سے تعلق ہے بھی یا نہیں، ڈاکٹر یہ بھی جاننا چاہے گا کہ آپ نے حال فی الحال میں کوئی سفر تو نہیں کیا یا پھرآپ کا کسی ایسے شخص سے قریبی تعلق یا رابطہ تو نہیں ہوا جو کورونا کا شکار ہوگیا ہے۔
اگر کسی شخص میں مرض کی علامات موجود ہیں تو مشتبہ شخص کے تھوک کا نمونہ لیا جائے گا اور قریب ترین لیب میں تھوک کو ٹیسٹ کے عمل سے گزارا جائے گا، یہ ٹیسٹ مکمل طور پر مفت ہوگا، اڑتالیس سے باہتر گھنٹے میں ٹیسٹ کے نتائج آجاتے ہیں، اس دوران مشتبہ مریض کو احتیاطی اقدام کے طور پر حکومت کے قرنطینہ سینٹر میں رکھا جائے گا۔

یہاں یہ بات بھی گوش گزار کرنا ضروری ہے کہ حکومت کورونا کے بحران سے نمٹنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے تاہم اس وائرس کو اسی صورت میں شکست دی جاسکتی ہے، جب ہم سب یک جان ہوکر حکومت کی فراہم کردہ ہدایات اور حفاظتی اقدامات پر عمل کریں لیکن
اگر ایسا نہ کیا تو پھر ایک بھیانک کھائی منہ کھولے کھڑی ہے جس کی گہرائی کا ہم میں سے کسی کو بھی اندازہ نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔